گلگت بلتستان میں جدیدیت (قسط اول): استعماریت،، جدیدیت اور روایت

 گلگت بلتستان میں جدیدیت (قسط اول): استعماریت،، جدیدیت اور روایت
از: عزیز علی داد


ارتقا کا تصور انسانی سماج میں ابتدائے تہذیب کے ساتھ ہی عمل پذیر رہا ہے۔ اس عمل۔نے انسان کو اس اہل بنایا کہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ایک مستحکم و مانوس دنیا سے ناموس طریقوں اور چیزوں کی طرف کامیابی سے ہجرت کرسکے۔ اس طرح سے انسان بتدریج تبدیلی کو سمجھنے کے بعد اپنے آپ میں تبدیلی لاتا تھا۔ یوں ارتقا کا عمل انسانی معاشروں کو مکمل خاتمے سے بچاتا تھا۔ سماجی علوم میں اس موضوع پر نئے پہلووں سے بحث و مباحث کا آغاز انیسویں صدی میں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کے بعد ہوا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا نے روایتی تصور حیات کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہ انسانی فکری و نفسیاتی تاریخ میں میں ان تین نظری زلزلوں میں شامل تھا جس نے روایتی فکر کی زمین کو تہس نہس کردیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا نے نا صرف سائنسی علوم بلکہ سماجی علوم کو بھی متاثر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی فلسفی ولیم جیمز نے سماجی فلسفے میں بقائے اصلح کا تصور متعارف کروایا۔ سائنسی علوم سے اس تصور کو سماج کے مطالعے کے لئے منطبق کرنے کے خطرناک نتائج نسل پرستی اور اور غیر انسانی رویوں کی صورت میں سامنے آئے۔ 


 تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد بقائے اصلح کے اصول اور اس پر مبنی تصورات پر سخت نقد کی گئی۔ بعض سماجی مفکرین نے انسانی معاشرے کو سمجھنے کے لئے بشریاتی نقطہ نظر پر زور دیا تو دوسروں نے یکسر تبدیلی کی بجائے ارتقائی عمل پر زور دیا۔ کچھ مکاتب فکر نے انقلاب کو راہ نجات قرر دیا اور بعض تاویلی عمرانیات سے سماجی معاملات کو سمجھنے کے حامی ٹھرے۔ گو کہ ارتقائی عمل سماج کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے اس برق رفتار تبدیلی اور برقی تہذیب میں کسی بھی سماج میں ارتقائی ترقی ممکن ہے؟ مضامین کے اس سلسلے میں ہم اس سوال کا جواب آخر میں دینگے۔ مگر اس سے پہلے ہم گلگت بلتستان کے سماج میں جدیدیت کے ارتقا کا جائزہ لینگے تاکہ ہمیں اس چیز کا ادراک ہو کہ جدیدیت نے کس طرح ہمارے وجودی تجربے کی نوعیت ہی بدل دی ہے۔ یوں ہماری سوچ بھی بدل دی ہے۔ ان مضامین کا ایک مقصد موجودہ سوچ کی آرکیالوجی کرنا ہے تاکہ اننلے تاریخی جڑوں۔تک پہنچ سکیں۔ اس مضمون میں کوشش ہوگی کہ ہم ان عوامل اور چیزوں کو آشکار کریں جن کو ہم نے روایت سمجھ رکھا ہے مگر حقیقت میں وہ جدیدیت کی پیدا کردہ ہیں۔ ہم بظاہر روایت پسند نظر آتے ہیں مگر ہماری روح میں جدید بیانئے حلول کرگئے ہیں۔مگر ہم اپنے اندر پیوست جدیدیت کے عناصر سے نابلد ہیں۔

 بحث کے آغاز سے پہلے ہم جدیدیت کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جدیدیت ایک ذہنی رویہ ہے جو ہمیں اپنے ماضی اور روایت سے کاٹ دیتا ہے۔ یعنی چیزوں کو دیکھنے اور کرنے کا انداز ہکسر بدل جاتا ہے۔ یوں یہ سماج، معیشیت، اخلاقیات، نفسیات اور زندگی کے دیگر پہلووں کو بدل دیتا ہے۔ مغرب میں جدیدیت ایک فکری تحریک کے طور پہ ابھری۔ مگر ہمارے تاریخی تناظر میں جدیدہت نوآبادیت کے جلو میں وارد ہوِئی۔ اس لئے نوآبادیت کو جدیدیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کو مرکزی کردار کے طور پر رکھنا لازمی ہے۔ ورنہ تجزیہ ادھورا اور غیر تاریخی ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جدیدیت کا نوآبادیت کے ساتھ اسی تعلق کی وجہ سے جدیدیت ہمارے ہاں مغرب کے برعکس آزادی اور مساوات کی مطلق علامت نہیں بن پاِئی۔ بلکہ یہ محرومیوں اور آزادیوں کا ایک متضاد مجموعہ بن گئی ہے۔ آج گلگت بلتستان کا تضادات اور تناقضات پہ مبنی جو سماج اور ریاستی نظام مروج ہے، اس کے سوتے اسی کالونیل جدیدیت کے تجربوں سے ہی پھوٹتے ہیں۔ آئے ذرا کالونیل جدیدیت اور اس کے تجربے کو گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

گلگت پلتستان میں جدیدیت اور اس کے زیر اثر تپدیلیوں کا آغاز برطانوی نوآپادیت کے دور میں ہوا۔ مگر اس کا دائرہ کار سیاسسی نظام تک محدود رہا۔ سماج پر اس کے اثرات بہت ہی محدود تھے۔ سیاسی طور پر یہاں کے راجے سات سمدر پار تاج برطانیہ کے ماتحت ہوگئے۔ یوں گلگت بلتستان کا جدید استعمار سے نوآباادی، مرکز اور حاشیئے، حاکم و محکوم والا تعلق قاِئم ہوگیا۔ اس نئے انتظام نے مقامی سماج کی ساخت اور ثقافتی رویوں پہ کوئی گہرا اثر نہیں پڑا۔ یعنی صدیوں پرانے سماجی و قبائلی ساختیں، سماجی رویے، ضروریات اور روایات جوں کی توں رہیں، سیاسی انتظام میں تبدیلی اس طرح آئی کہ نئے انتظام میں مقامی حکمران بیرونی آقاوں کے غلام بن گئے۔ کالونیل نظام حکومت میں مقامی راجے اور میر اپنی ریاستوں کے اندرونی معاملوں کے متعلق فیصلے کرنے میں بڑی حد تک خودمختار تھے۔ اسی لئے بعض ریاستوں میں جبری بیگار اور کمر توڑ ٹیکس کا نظام جوں کا توں قائم رہا۔ تاہم کالونیل دور میں معاشی میدان میں کچھ نئے مواقع نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جی بی سکاوٹس بننے اور دیگر ملازمتوں کی وجہ سے لوگ پہلی مرتبہ نوکری، تنخواہ اور کرنسی سے متعارف ہوئے۔ انہی فوجیوں اور ملازموں نے گلگت بلتستان میں مقامی سرمائے کی بنیاد رکھی کیونکہ ریٹائر فوجیوں اور ملازموں نے بعد میں مختلف قسم کےکاروبار کا آغاز کیا اور مالیاتی اداروں کی بنیاد رکھی۔ 


مگر کرنسی سے واقفیت صرف حکمران اور نوکری پیشہ لوگوں    

تک محدود تھی۔ اس کا ثبوت ۱۹۲۰ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں لکھے گئے رپورٹوں میں ملتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک رپورٹ ۱۹۲۲ کے گلگت کی صورتحال کے متعلق بتاتی ہے کہ گلگت کے بازار میں چینی، نمک، اور روسی و چائنیز اشیا دستیاب ہیں مگر لوگ خریداری نہیں کرتے کیونکہ اُن کے پاس یا تو کرنسی نہیں ہے اور زیادہ تر تو کرنسی کےاستعمال سے ناآشنا ہیں۔ برطانوی دور میں مواصلات کے سلسلے میں جو اقدامات اٹھائے گئے وہ تاج برطانیہ کی عسکری و تزویری ضروریات کے تحت اٹھائے گئے تھے۔ اس سلسلے میں نوآبادیاتی طاقت میں مقامی ,

ثقافتی و سماجی روایات کو عسکری مقاصد کے لئے استعمال کیا، مگر اس کو بیان ایک ایسے طریقے سے کیا گیا کہ لوگوں کے لئے یہ اقدامات ثقافتی تفاخر کا ذریعہ بن گئے۔ یوں ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا جس کے مقاصد استعماری تھے مگر لوگ اپنا سمجھ بیٹھے تھے۔ ہم اس عمل کو ایک ثقافتی کھیل سے واضع کرتے ہیں جو اب گلگت بلتستان کی پہچان بن گیا ہے۔ یہ ثقافتی چیز پولو ہے۔


۱۸۱۳-۱۹۰۷ 

کے درمیان تاج برطانیہ اور زار روس کی سلطنت کے درمیان جو گریٹ گیم کھیلا گیا اسکا مرکز بالائی ایشیا تھا اور اس میں چترال سے لے کر لداخ بشمول گلگت بلتستان کا علاقہ اس بڑے کھلواڑ کا محور تھا۔ بالائی ایشیا کے یہ علاقے دشوار گزار اور برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اس لئے دور افتادہ علاقوں تک رسائی ناممکن تھی۔ جنگ کی صورت میں ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان اور سپاہیوں کی نقل و حرکت بہت بڑا چیلنج تھا۔ ان چیلنجزز سے نمٹنے کے لئے برطانیہ نے باہر سے کوئی حل درآمد کرنے کی بجائے مقامی سماج و روایت سے حل نکالا۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ برطانوی دور میں پولو کے کھیل کو سب سے زیادہ ترویج دی گئی۔ گلگت سکاوٹس کو خاص طور سے پہاڑی جنگ کے لئے بنایا گیا۔ فوجی ساز وسامان کی ترسیل اور فوجی نقل و حرکت کے لئے ایک تفصیلی پلان تیار کیا گیا۔ اور اسی پلان کے تحت سرحدی علاقوں کے ہر گاوں میں پولو کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور پولو گراونڈ بنائے گئے۔ پولو کے ان میدانوں میں مختلف گاوں اور علاقوں کے درمیان باقائدگی سے ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ پھر گلگت میں مقامی راجوں کو خاص مواقعوں پر اپنی ٹیموں کے ساتھ مدعو کیا جاتا تھا۔ جیتنے والے کھلاڑیوں کو انعامات اور راجوں کو خلعت سے نوازا جاتا تھا۔ یوں نوآبادیاتی ریاست اور زیردست راجاوں کے درمیان ایک تعلق قائم رہتا تھا۔ اس کو کالونیل زبان میں سرپرست اور زیردست کا رشتہ کہہ سکتے ہیں۔


یہ تو پولو کے کھیل کا نظر آنے والا پہلو تھا۔ اس کے پس پردہ عسکری اور نفسیاتی مقاصد کارفرما تھے۔ پولو کے کھیل کی ترویج کے پیچھے جو عسکری محرکات کارفرما تھے وہ یہ تھے کہ باقاعدگی سے پولو کھیلنے کی وجہ سے گھڑ سوار پریکٹس میں رہتے تھے۔ پولو کی ٹیمیں مقامی راجاوں کےماتحت ہوتے تھے اور راجے تاج برطانیہ کے ماتحت۔ گلگت سکاوٹس میں صوبیداروں سے اوپر کے عہدوں پر مقامی حکمرانوں کے اولاد یا قریبی رشتہ دار فائز ہوتے تھے۔ یہ لوگ ایک طرح سے راجاوں کی طرف سے بطور ضمانت جمع ہوتے تھے تاکہ مقامی راجاوں کو بغاوت سے روکا جاسکے۔ بغاوت کی صورت میں انکو پھانسی بھی دی جاسکتی تھی۔ مقامی راجے تاج برطانیہ کے تابعدار اور عوام راجوں کے وفادار تھے۔ استعماری پلان کے مطابق، روس کے ساتھ جنگ چھڑنے کی صورت میں مقامی راجوں کے ذریعے ہزاروں کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی کمک کو پلک جھپکتے میں ہی متحرک کیا جاسکتا تھا۔ اس حکمت عملی کی ایک جھلک نوآبادیاتی دور کے انگریز آفیسر ویلیم جارج بینین کتاب "ودھ کیلی ٹو چترال" جس کا اردو ترجمہ چترال سے ہمارے دوست شمس الدین نے "گلگت سے چترال تک" کے نام سے کیا ہے میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں گھوڑوں کے ذرعے توپ اور اسلحہ و دیگر سازوسامان کو گلگت سے چترال لے جانے والے لوگ اور راستے میں گائیڈ کرنے والے سارے لوگ وزیر، معتبرین اور عام لوگ ہیں۔ 


کاالونیل دور میں پولو کی ترویج کے نفسیاتی مقاصد بھی تھے۔ اس لئے پولو کا کھیل نوآبادیاتی سوچ کو عوام میں رائج کرنے کا اہم کھیل بن گیا۔ چونکہ مقامی حکمرانوں کو پولو کے ٹورنامنٹس میں انگریز آفیسروں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملتا تھا، اس لئے وہ فخر کے ساتھ نوآبادیاتی نوکروں کے ساتھ اپنی شناشائی کا بھرم مارتے تھے۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ انگریزوں سے شناشائی کا اتنا جنون تھا کہ مقامی راجوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا کہ اس کی کرسی دوسروں کی نسبت کرنل کوب کے قریب ہو۔ ایک کہانی یہ بھی ہے کہ گلگت کے ایک قبیلے کا سربراہ اس بات پہ ساری عمر اتراتا رہا کہ اسے مجینی محلہ میں واقع پرانے پولو گراونڈ میں پولو ٹورنامنٹ کے دوران ایک انگریز میم جو کرسی پر بیٹھی تھی کے پاوں کے نیچے چبوترے کے فرش پر بیٹھنے کی جگہ دی گئی تھی۔ ان صاحب کو یہ گمان بھی تھا کہ شاید انگریز خاتون اس کی مردانہ وجاہت پر فدا تھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ انگریز گلگت والوں کو ساتھ اس لئے نہیں بیٹھنے دیتے تھے کہ ان سے بدبو آتی تھی۔ 


اسی طرح عوام میں سے جو شخص اپنے راجے کے ساتھ پولو کھیلتا تھا وہ اپنے لوگوں پہ رعب جماتا تھا کہ وہ بادشاہ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا اور کھیلتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے ہی جیسے لوگوں حتی کہ قریبی رشتہ داروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتا تھا۔ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کالونیل نظام نے ایک ایسی نفسیات کی تشکیل کی تھی جس میں کمتر لوگوں کا ایک سلسلہ مدارج ترتیب پایا تھا جس میں انگریز اشرف امخلوق تھے اور مقامی راجے ان سے کمتر، اور راجوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا راجوں سے نیچا مگر دوسرے لوگوں سے بڑا اور عام عوام پولو میں ڈھول بجانے والے ڈوم سے افضل ہوتے تھے۔ 

اب بھی راجوں اور بعض لوگوں کے گھروں میں برطانوی آفیسران کے ساتھ پولو کھیلنے اور ساتھ بیٹھے نکالی گئی تصاویر نظر آئینگی اور لوگ تفصیل بیان کرینگے کہ وہ تخت برطانیہ کے کتنے قریب ہیں۔ آپ اس تاریخی تناظر کو آج کے دور میں سرکار کے ماتحت منعقد ہونے والے پولو کھیل سے سمجھ سکتے ہیں۔ کالونیل دور میں پہلے گھوڑوں کو سدھایا گیا، پھر لوگوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ استعمار کی خدمت پر معمور گھوڑوں کی وہ خدمت کرسکیں۔ آج گھوڑوں کے کھیل کو اس لئے سجایا جاتا ہے تاکہ گلگت بلتستان کے انسانوں کو سدھایا جاسکے۔ اسی طرح جنرل مٹرف دور سے ایک رجحان نے جنم لیا جس میں گلگت بلتستان کے مقامی آفیسران، معتبران اور عمائدین عید کی نماز ایف سی این اے میں ادا کرتے تھے اور اس کے بعد سارا دن اتراتے اور بتاتے پھرتے تھے کہ انھوں نے ایف سی این اے کی مسجد میں نماز ادا کی۔ کالونیل طاقت سے مرعوب گلگتیوں کو یوں لگتا ہے کہ نعوذ بااللہ خدا ایف سی این اے کی مسجد میں موجود ہے۔ کسی سماج کی یہ حالت جو تب بنتی ہے جب وہ کالونیل سوچ کو اپنی سوچ و شخصیت پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم وہ بھورے لوگ ہیں جن پر گورے اور سانولے رنگ کے نوآبادیاتی نقاب چڑے ہوئے ہیں۔ 


ایک دوسرا نفسیاتی حربہ جس کو نوآبادیاتی طاقت نے استعمال کیا اور روایت کی ایجاد ہے۔ تاریخی طور پر پولو کا کھیل اور گھوڑا ہماری روزمرہ کی زندگی سے جڑا ہوا تھا۔ آج سے سو سال پہلے گھر میں گھوڑے کو پالنا اور پولو کھیلنا ایک عام سی بات تھی۔ مگر اس کو خاص لوگوں کا خاص کھیل بنا دیا گیا۔ نوآبادیاتی طاقت نے ہمیں ہمارے کھیل پولو کے متعلق بتایا کہ یہ فری سٹائل پولو ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے ہاں کھیلے جانے والا پولو بغیر کسی اصول اور قانون کے کھیلا جاتا یے۔ یہ مطیع معاشروں کے متعلق نوآبادیاتی طاقت کی روایتی سوچ کا مظہر ہے جہاں غیر یا دوسرے معاشروں کو وحشی اور قانون سے عاری تصور کیا جاتا ہے۔ دیامر اور کوہستان والوں کو مقامی لوگ اب بھی یاغستانی یعنی بے قانون لوگ ہیں۔ یہ نام اس کالونیل پریکٹس سے آیا ہے جہاں پہ کسی قوم کے ساتھ ایک وصف منسلک کرکے اس قوم کے افراد کے متعلق رائے قائم جاتی تھی۔ جب انسانوں اور ان کے رویوں کو غیر انسانی تصور کیا جاتا ہے تو حیوانوں سے کھیلے جانے والا کھیل کس طرح اصول و قواعد کے پابند ہوسکتا تھا؟ نتیجے کے طور پر ہمارے لاشعور میں پولو کے ایک ایسے تصور کو پیوست کیا گیا جس کی رو سے یہ کھیل تو بادشاہوں کا یے مگر وحشیوں کے ہاتھ لگا ہے۔ہمیں کیوں نہیں بتایا گیا کہ گلگت بلتستانی و چترالی اس کھیلوں کے بادشاہ کے مالک ہیں۔ کیا ہم ہرجیکی (آدھا گول)، ببالہ (کیچ)، میچ کے دوران مختلف مواقعوں کی مناسبت سے مختلف دھنیں، کلھیل سے پہلے گھوڑے کی موسیقی کی دھن پر ہفتوں تک تربیت، میدان میں داخل ہوتے وقت کھلاڑیوں کا زمین یا گھوڑے کو اپنے ہاتھوں سے چومنا بے اصول حرکات ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو بتاتے کیوں نہیں ہیں؟ اس کی وجہ ہماری تاریخ و ثقافت سے خود فراموشی ہے۔ ہم نے بے اصول/ قانون پولو کے تصور کو اپنے اندر اتنا سمویا ہے کہ ہم نا صرف ہمارے پولو کے بے اصول ہونے کے قائل ہوچکے ہیں بلکہ اس کو ثابت کرنے کے لئے بے اصول پولو کھیلتے ہیں۔ اس کے مظاہر آج کل گلگت کے پولو کے میدانوں میں ملتے ہیں جہاں ہم پولو کھیلنے کی بجائے ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جگ سے بلہ دہن۔۔۔ جب ہم بغیر تاریخی شعور کے وراثت پاتے ہیں تو ثقافت کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اپنے متعلق منفی بیانئیے کو اپنی شناخت بنانے کے عمل کو استعماری غلامی

 (Internalisation of colonialism)

 کہا جاتا ہے۔ 


اسی طرح لاقانونیت اور بہادری کے متعلق روایات کو جدید دور میں ایجاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں ان ریاستوں کو جنھوں نے نوآبادیاتی طاقت کی سخت مزاحمت کی ان کو فتح کرنے کے بعد مارشل ریس یعنی جنگجو نسل قرار دیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مزاحمت کو نوآبادیاتی طاقت میں سموکر اس کے اثر کو زائل کیا جائے۔ یہ عمل ہمیں برطانوی انڈیا میں بھی نظر آتا ہے جہاں گورکھوں، پنجابیوں، پٹھانوں وغیرہ کو مارشل ریس یا جنگجو نسل قرار دیا گیا اور دوسروں کو غیر اعلانیہ طور پر بزدل پیش کیا گیا۔ اور اسی تصور کو تقویت دینے کے لئے دقیانوسی تصورات/ سٹیریو ٹائپس بنائے گئے۔ تاج برطانیہ کے مارشل ریس یا جنگجو نسل کے دقیانوسی تصور کو جنگجو نسل سے تعلق رکھنے والے نسل پرستی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوآبادیاتی طاقت کا سب سے زیادہ مطیح وہی لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ بہادر ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ برطانوی استعمار نے مقامی لوگوں اور ریاستوں کی سرکوبی کے لئے نام نہاد مارشل یا جنگجو نسلوں کے لوگوں کو استعمال کیا ہے۔ گلگت بلتستان میں ڈوگرہ اور برطانوی نوآبادیاتی جنگوں میں پنجابیوں اور پٹھانوں نے نا صرف کلیدی کردار ادا کیا بلکہ ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے جن کی نظیر گلگت بلتستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ منڈوری یاسین میں ۱۸۶۳ میں ڈوگروں نے جو کشت و خون کی ہولی کھلی اس میں اکثریت پنجابیوں اور پٹھانوں کی تھی۔ اسی طرح برطانیہ نے یاسین، ہنزہ اور نگر کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد ان علاقوں کے لوگوں کو مارشل یا جنگجو نسل اور باقی کو سست اور بزدل قرار دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہنزہ، نگر اور یاسین کی فتح کے بعد گلگت سکاوٹس بنائی جاتی ہے اور اس میں سب سے زیادہ لوگ انہی علاقوں سے بھرتی ہوتے ہیں۔ بعد میں ان لوگوں نے برما تک جاکے برطانوی استعمار کے لئے جاپان کے خلاف جنگ لڑی۔ ہم عمومی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ روایت قدیم زمانے سے ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید زمانے کی نوآبادیاتی طاقتوں اور ریاستوں نے محکوم معاشروں میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے مختلف روایات کی تشکیل کی ہے۔ یہ روایات قدیم نہیں بلکہ جدید تشکیل ہے۔ مگر ہم ان نوآبادیاتی ایجادات کو اپنے وجود کا اٹوٹ انگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ سب تاریخی شعور نا ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ 

روایت کی ایجاد کے متعلق ایرک ہابس بام اور ٹیرنس رینجر نے ایک شاندار کتاب 

The Invention of Tradition 

لکھی ہے۔ ہمیں اپنے تناظر میں اس قسم کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر قوم کو دیگر ضروری مصروفیات کی وجہ سے فرصت نہیں ہے۔ جب بائیسویں صدی میں محقق گلگت بلتستان کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو لکھے گا کہ اکیسویں صدی گلگت بلتستان میں مہمان خصوصیوں اور ان کی خوش آمدیوں کی صدی تھی۔ باقی تاریخ دان کو آرکائیوز میں عہدوں میں پروموشن کی مبارکبادیاں اور ماہر آثار قدیمہ کو کرسیاں اور ہار ملیں گے۔ یہ ہوگی ہماری آنے والی نسلوں کے لئے موجودہ نسل کی وراثت۔ 

اگلی قسط میں ہم نوآبادیاتی دور میں جدیدیت کے ابتدائی

 خدوخال کا جائزہ لینگے۔

Post a Comment

0 Comments